سوال:۱-کیاعشر، زکوۃ وغیرہ کے پیسے سے مدرسہ کی تعمیر کرسکتے ہیں؟
۲۔کیاسودی رقم سے اسی مدرسہ کا لیٹرین، باتھ روم وغیرہ تعمیر کراسکتے ہیں؟
۳- ہم گائوں میں مختلف مصالح کی بنیاد پر جرمانہ وصول کرتے ہیں، جرمانہ کی اس رقم کو ہم کہاں کہاں صرف کرسکتے ہیں؟ کبھی کبھی ہم تعزیراً جرمانے کی رقم سے پوری برادری کو کھانا کھلواتے ہیں کیا یہ کھانا سب لوگ کھاسکتے ہیں؟
ھــوالمصــوب:
۱-دریافت کردہ صورت میں عشر اور زکوۃ وغیرہ کی رقوم سے مدرسہ کی تعمیر جائز نہیں ہے، بلکہ ان کے مصارف متعین ہیں۔(۱)
۲-سودی رقم سے مدرسہ یا گھر وغیرہ کے بیت الخلاء کی تعمیر درست نہیں ہے، اس رقم کو ضرورت مندوں پر صرف کرنا لازم ہے۔(۲)
۳-مالی جرمانہ درست نہیں ہے(۳)،اور جرمانہ میں کھانا کھلانا بھی جائز نہیںہے۔
تحریر:محمد ظفرعالم ندوی تصویب:ناصر علی