سوال:ہمارا گاؤں چندگام ضلع بلوار سے آٹھ کلو میٹر دور ہے، یہاں تقریباً ایک ہزار ایسے آدمی ہیں جو شرعی لحاظ سے بالغ ہیں، ہمارا گاؤں تقریباً ایک کلو میٹر پر پھیلا ہواہے، اور پانچ محلات پر مشتمل ہے اور ہر محلہ میں ایک مسجد ہے، پہلے ایک مسجد میں جمعہ تھا، پھر اختلافات ورنجش کی بنا پر یکے بعد دیگرے سبھی میں جمعہ ہونے لگا۔
۱-کیا ہمارے گاؤں میں جمعہ کی نمازجائز ہے؟
۲-مذکورہ تینوں جامعوں میں نماز ادا کرنا درست ہے؟
۳-اگر جائز نہیں تو کیا کیا جائے؟
ھــوالــمـصــوب:
۱-مذکورہ گاؤں میں نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے(۲)
(۱) قولہ ’’وتؤدی فی مصر فی مواضع‘‘ أی یصح أداء الجمعۃ فی مصر واحد بمواضع کثیرۃ وھو قول أبی حنیفۃ ومحمد وھو الأصح لأن فی الاجتماع فی موضع واحد فی مدینۃ کبیرۃ حرجاً بیناً وھومدفوع۔ البحرالرائق،ج۲،ص:۲۵۰
(۲)ویشترط لصحتھا سبعۃ أشیاء:الأول المصر و ھوما لا یسع أکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھاوعلیہ فتوی أکثر الفقہاء ۔درمختار مع الرد،ج۳،ص:۵
۲-اگر ذاتی مفاد اور ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے دوسری اور تیسری جامع مسجد قائم کی گئی ہے تو مسلمانوں کو ان مسجدوں میں نماز جمعہ ادا نہ کرنا چاہئے بلکہ پہلی جامع مسجد میں نماز ادا کرنی چاہئے(۱)
۳-آپسی جھگڑوں کو ختم کرکے کسی ایک ہی جگہ نماز ادا کرنی چاہئے جہاں تمام نمازی سماسکیں، اگر جھگڑے فی الفور ختم نہ بھی ہوسکیں تب بھی ختم کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہنی چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جھگڑا کرنے والوں کو صلح واتفاق کی توفیق دے دے۔
تحریر:محمد ظفرعالم ندوی تصویب:ناصرعلی ندوی