سوال:۱-ایک آدمی رات کو سوتا ہے مگر اس کو رات بھر بے چینی رہتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فجر کی نماز قضا ہوجائے اور پابندی سے نماز پڑھتا بھی ہے مگر پھر بھی اکثر اس کی نماز فجر قضا ہوجاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اس کی نماز قضا ہونے پر خدا کے یہاں پکڑ ہوگی یا نہیں؟
۲-اگر کسی کی جماعت چھوٹ گئی تو پھر جب وہ نماز وقت پر پڑھے یا بے وقت پڑھے ہر صورت میں اس کی تکبیر کہنا ہے یا نہیں جو تکبیر جماعت شروع ہونے سے پہلے کہی جاتی ہے یہ مسئلہ بار بار آتا رہتا ہے، اس کا خلاصہ تحریر فرمایا جائے تاکہ غلطی سے آدمی بچے۔
ھــوالــمـصــوب:
۱-اگر مذکورہ شخص پورے اہتمام کے ساتھ سوتا ہے کہ اس کو فجر کی نماز باجماعت پڑھنی ہے ۔مثال کے طور پر گھڑی کا الارم لگادیتا ہے یا اپنے گھروالوں کو تاکید کرکے سوتا ہے کہ اس کوفجر کی نماز میں جگادیں، پھر اس کے باوجود اس کی نماز فوت ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں غالب گمان یہی ہے کہ اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ بخاری میں روایت ہے :
من نسی صلوۃ فلیصلھا إذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک(۱)
وعن قتادۃ قال قال رسول ﷲ ﷺ: لیس فی النوم تفریط إنما التفریط فی الیقظۃ فإذا نسی أحدکم صلوۃ أونام عنھا فلیصلھا إذا ذکرھا(۲)
۲-گھر میں نماز پڑھنے والے کے لئے مسجد کی اذان واقامت کافی ہے تاہم اقامت کہنا اچھا ہے :
فإن صلی رجل فی بیتہ بأذان الناس وإقامتھم أجزاہ لما روی أن ابن مسعود صلی بعلقمۃ والأسود فی بیت فقیل لہ ألا تؤذن فقال أذان الحی یکفینا بخلاف المسافر فإنہ یکرہ لہ ترکھما وإن کان وحدہ لأن المکان الذی ھو فیہ لم یؤذن فیہ لتلک الصلوۃ فأما ھذا الموضع الذی فیہ المقیم وقد أذّن وأقیم فیہ(۳)
اسی طرح منفرد (تنہا نماز پڑھنے والا چاہے وہ ادا نماز پڑھ رہا ہو یا قضاء) نماز کے لئے اذان واقامت دونوں کہے یا صرف اقامت کہے دونوں صورت اس کے لئے جائز ہے:
قال إن أذن وأقام فھو حسن لأن المنفرد مندوب إلیٰ أن یؤدی الصلوۃ علیٰ ھیئۃ الصلوۃ بالجماعۃ ولھٰذا کان الأفضل أن یجھر بالقرأۃ فی صلوۃ الجھر وکذلک إن أقام ولم یؤذن فھو حسن لأن الأذان لإعلام الناس حتیٰ یجتمعوا و ذلک غیر موجود ھٰھنا و الإقامۃ لإقامۃ الصلوۃ فھو یقیمھا(۱)
والضابطۃ عندنا أن کل فرض أداء کان أو قضاء یؤذن لہ ویقام سواء أداہ منفرداً أوبجماعۃ إلا الظھر یوم الجمعۃ فی المصر فان أداہ بأذان وإقامۃ مکروہ کذا فی التبیین(۲)
سوائے جمعہ کے دن ظہر کی نمازکے کہ بغیر اذان واقامت اس کو ادا کیا جائے گا، جمعہ فوت ہوجانے کی صورت میں۔
تحریر:محمد ظفر عالم ندوی