مدارس میں انگریزی تعلیم

تعلیم سے متعلق چند متفرق سوالات
أكتوبر 29, 2018
علم طب کی طرف توجہ
أكتوبر 29, 2018

مدارس میں انگریزی تعلیم

سوال :مدارس دینیہ کی تاریخ میں یہ بات مسلم ہے کہ مدارس کا وجود اصل دینی علوم کیلئے ہے،اور ان مدارس میں علوم قرآن وحدیث تک پہونچنے اور سمجھنے میں چند علوم بطور آلہ کے استعمال کئے جاتے ہیں ،جن میں خاص طور پر علم صرف ،علم نحو وغیرہ‘ اسی طرح دوسری بات آج کے دور کو دیکھتے ہوئے انگریزی کی ضرورت واہمیت سے بھی انکار نہیں ،اب چند باتیں دریافت طلب ہیں: 1-مذکورہ بالا وجہ کی بنیاد پر زید کا شرح ماء ۃ عامل کے لئے انگریزی کے مقابلہ میں پندرہ منٹ کا مطالبہ یا مشورہ رکھنا درست ہے ؟ ۲-عمر و کا اس مطالبہ یا مشورہ کو صحیح یا غلط سمجھنا ؟ ۳-جو علو م قرآن وحدیث کے سمجھنے میں معین ومددگار ہیں کیا ان علوم کو انگریزی پر کچھ فوقیت حاصل ہے ؟ ۴-عمر و کہتاہے کہ جو علو م بالواسطہ مقصود ہیں وہ اور انگریزی دونوں برابر ہیں ؟ ۵-انگریزی کا مذکورہ علوم کے مقابلہ میں ثانوی درجہ دینا درست ہے یا نہیں ؟ ِ

ھوالمصوب:

جہاں تک علو م کا تعلق ہے تو ہر وہ علم جس کے ذریعہ ﷲ تعالی کی رضامندی مقصود ہو وہ باعث خیر وبرکت اور نجات کا ذریعہ ہیں ،اور اس کا دار ومدار نیت پر ہے ،حدیث میں ہے ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘(1)بہر حال علو م قران کو تمام علوم پر فوقیت حاصل ہے ،اور صرف ونحو یعنی وہ علوم جو قرآن وحدیث کے حصول میں ذریعہ ووسیلہ کا درجہ رکھتے ہیں ،اگر چہ مقصود اصلی نہیں ہیں ،لیکن ان کا بھی حاصل کرنا کچھ کم اہم نہیں ہے اور تبلیغ دین اور دشمنان اسلام کے اعتراض کے جواب دینے کے لئے انگریزی کا سیکھنا بھی موجود ہ دور میں کچھ کم اہم نہیں ،لہذا حسب ضرورت انگریزی اور نحو وصرف کے لئے وقت دیا جائے ،اور یہ انتظامیہ کی صوابدید پر رکھ چھوڑا جائے ،اس کو ہر گز نزاعی مسئلہ نہ بنا یا جائے، کیونکہ ان کی تعلیم کا مقصد تو دین سیکھنا اور سکھانا ہی ہے ،ہاں انتظامیہ کو مشورہ دینے اور حسب ضرورت زائد وقت کا مطالبہ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں ،بہر حال قران وحدیث کی تعلیم کے لئے سب سے زیاد ہ وقت نکالنا بہتر و افضل ہے ،لیکن دوسرے علوم جو کہ ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں برابری کا برتاؤ کرنا بہتر ہے ۔ 1۔حسب ضرورت زید کے مشورہ دینے میں کوئی کراہت نہیں ہے ۔ ۲۔عمرو کا مطالبہ یا مشورہ کو غلط سمجھنا صحیح نہیں ہے ۔ ۳۔انگریزی کے مقابلہ میں ان علوم کو فوقیت حاصل ہے ،اس لئے کہ قرآن وحدیث کا سمجھنا انہی علوم پر موقوف ہے اور انگریزی کا سیکھنا فرض کفایہ ہے ۔ ۴،۵۔اپنی اپنی جگہ دونوں کی اہمیت ہے، تقابل کی ضرورت نہیں ہے۔ تحریر: محمد مسعود حسن حسنی

تصویب : ناصر علی ندوی