سوال:ہمارے دیار میں رمضان شریف میں نماز تراویح میں قرآن پاک مکمل سنانے کے بعد حافظ صاحب کے لئے نذرانہ کے نام پرچندہ ہوتا ہے، جبکہ حافظ صاحب کی طرف سے نذرانہ کی ر قم متعین نہیں ہوتی ہے لیکن حافظ صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ موٹی رقم ملے گی یہی وجہ ہے کہ اکثر حفاظ کو اچھی جگہ کی تلاش ہوتی ہے۔
(الف) تراویح کے نام پر چندہ مانگنا اور دینا درست ہے یا نہیں؟
(ب) تراویح کے نذرانہ کے جائز ہونے کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟
(ج)کسی مقام پر بغیر نذرانہ کے قرآن سنانے والے نہ ملے تو کیا کرنا چاہئے؟
(د) اس بیماری میں اکثر دین سے واقف طبقہ (علماء وحفاظ) ملوث ہیں اور اس مسئلہ کو چھیڑنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟
ھــوالــمـصــوب:
تراویح کے نام پرچندہ مانگنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی بطیب خاطر کچھ دے جس میں اجرت کے طور پر نہ ہو تو جائز ہے(۱) الم ترکیف سے تراویح پڑھیں، ایسی تدبیریں اختیار کریں جن سے فتنہ بھی نہ ہو اور اصلاح بھی ہوجائے۔
تحریر: محمدظفرعالم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی