سوال:گمانی بیگم نام کی ایک قدیم مسجد ہے جس کے نام ایک وسیع وعریض قطعۂ آراضی وقف ہے اور ایک وقف کمیٹی کے تحت اس کے امور انجام پاتے ہیں،اس کے ذمہ داران میں متولی صاحب ہی عالم ہیں جو باضابطہ امام بھی مقرر ہیں۔ باقی چار نفر پر مشتمل وقف کمیٹی کے ممبران عصری تعلیم یافتہ ہیں۔
متولی موصوف نے درازیٔ عمر کی وجہ سے نیز متولی موصوف کی اس موقوفہ جائیدادکے حصول کی نسبت سے گزشتہ ایام میں بڑی قربانیاں رہی ہیں۔ بنابریں وقف ممبران ان کے بیشتر امور واعمال میں دخیل نہیں بنتے۔ اس پس منظر میں متولی صاحب نے اپنے ایک صاحبزادہ کو اپنا نائب جانشین خیال کرمسجد کا نائب امام نامزد کردیا اور بیشتر نمازوں کی امامت ’عزیز سے کرانے لگے اور موصوف ؒ صاحبزادہ‘ کے اندر فی نفسہ امامت کی اہلیت کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ نہ تو عالم ہیں اور نہ ہی حروف کے مخارج کی ادائیگی پر قادر ہیں۔
جبکہ اسی موقوفہ سرزمین پر ایک معتبر ادارہ بھی قائم ہے جس کے اساتذہ میں علماء فضلاء حفاظ میں سارے ہی موجود رہتے ہیں اور مسجد کے مصلیان میں۹۸فیصد مصلی اسی مدرسہ کے اساتذہ وطلباء ہیں۔ مذکورہ مدرسہ کا سن قیام ۹۸ء سے ابھی ۶-۴ مہینے قبل تک متولی وامام صاحب کی غیرحاضری میں اس کے اساتذہ امامت کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ ایام میں ارباب مدرسہ اور متولی موصوف کے مابین ناچاقی پیدا ہوجانے کے سبب اپنے بیٹے کو امام
== والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغیراً یکون اعتقادہ کفرا یفسد فی جمیع ذلک سواء کان فی القرآن أولا…… وأما المتأخرون کإبن مقاتل…… فاتفقوا علی أن الخطأ فی الاعراب لایفسد مطلقاً و لو اعتقادہ کفراً لأن أکثر الناس لایمیزون من وجوہ الاعراب قال قاضیخاں وما قالہ المتأخرون أوسع وما قالہ المتقدمون أحوط ۔ردالمحتار،ج۲،ص:۲۹۳
نامزد کردیا۔ اور مصلیوں کی بڑی تعداد کی عدم رضا ورغبت کے باوجود موصوف امامت کرنے لگے۔ اس مسئلہ کو ارباب مدرسہ وممبران وقف مسجد نے حل کرنے کی کوشش کی اور بالاتفاق نائب امام ایک مدرس کو بنایا گیا لیکن متولی صاحب نے عملاً اپنے ہی بیٹے کو امام بنائے رکھا۔ اس کے بعد مدرسہ والوں نے مسجد چھوڑکر مدرسہ ہی میں جماعت شروع کردی۔
اس منظر نامہ کی روشنی میں ذیل کے سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:-
۱-متولی موصوف کا اپنے بیٹے کو اپنا نائب وجانشین بنانا درست ہے؟
۲-مستقبل میں اس کی جانشینی کو مستحکم کرنے کے لئے برائے تربیت ابھی سے امامت کروانا درست ہے یانہیں؟
۳-مصلیان میں جبکہ علماء وحفاظ موجود ہوں نیم مولوی ان سب کی امامت کرسکتا ہے؟
۴-موجودہ صورت میں نامزد امام مستحق امامت ہے یا مقتدی علماء میں احق بالامانت؟
۵-اگر موصوف کی امامت درست ہے تو فبھا ورنہ ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں لازم الاعادہ ہیں؟
۶-تقدس امامت کے پیش نظر داڑھی کی حد کیا ہے؟
۷-انہی حالات کے پیش نظر ارباب مدرسہ نے مسجد چھوڑمدرسہ میں جماعت شروع کردی شرعاً ان کا عمل درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا تدبیر اور ترکیب بہتر ہوسکتی ہے؟
ھـو المـصـوب
۱-نااہل ہونے کی وجہ سے متولی اپنے بیٹے کو اپنا نائب نہیں مقرر کرسکتے ہیں۔
۲-نااہل سے امامت کروانا درست نہیں ہے۔
۳-علماء وحفاظ کی موجودگی میں نااہل کی امامت درست نہیں ہے۔
۴-اہل شخص کا انتخاب ہونا چاہئے
۵-جس نماز میں ان کی قرأت سے فساد معنی لازم آئے اس کا اعادہ ہوگا تمام نمازوں کا اعادہ نہیں ہے۔
۶-ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔
۷-شرعاً ان کا عمل مستحسن نہیں ہے، حکمت عملی کے ذریعہ اہلیت رکھنے والے امام مقرر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
تحریر: محمد مستقیم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی