سوال: عورت کی اقتداء عورت کے پیچھے درست ہے یا نہیں، حضرت تھانویؒ اور مولانا عبدالشکورؒ نے اسے جائز قرار دیا ہے، لیکن عصر حاضر کے علماء دیوبند مکروہ لکھتے ہیں۔
ھـو المـصـوب
’’عورت کی امامت عورتوں کے لئے‘‘ کے بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں، احناف کی مستند کتب فقہ اور فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر فقہاء احناف اس کو مکروہ کہتے ہیں، لیکن کراہت کے ساتھ جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔بدائع الصنائع میں ہے:
وکذا المرأۃ تصلح للامامۃ فی الجملۃ……الا أن جماعتھن مکروھۃ عندنا(۱)
ہدایہ میں ہے:
ویکرہ للنساء أن یصلین وحدھن الجماعۃ(۲)
درمختار میں ہے:
ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء و لو فی التراویح فی غیر صلاۃ جنازۃ (۳)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
ویکرہ إمامۃ المرأۃ للنساء فی الصلوات کلھا من الفرائض والنوافل فان فعلن وقفت الإمام وسطھن وبقیامھا وسطھن لاتزول الکراھۃ (۴)
جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن میں حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کی امامت کا تذکرہ
== عن علیؓ قال : لاتؤم المرأۃ۔ المصنف لابن أبی شیبۃ، کتاب الصلاۃ باب من کرہ أن تؤم المرأۃ النساء۔ حدیث نمبر:۴۹۹۴
ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء ولوفی التراویح فی غیرصلاۃ جنازۃ۔ درمختار مع الرد،ج۲،ص:۳۰۵
(۱)بدائع الصنائع، ج۱،ص:۳۸۷ (۲)الہدایۃ مع الفتح،ج ۱،ص:۳۶۲
(۳)درمختار مع الرد،ج۲،ص:۳۰۵ (۴)الفتاویٰ الہندیہ ج۱،ص:۸۵
ہے(۱) فقہاء اسلام ان کو ابتداء اسلام پر محمول کرتے ہوئے بعد کے لئے منسوخ مانتے ہیں۔ چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
ویروی فی ذلک أحادیث لکن تلک کانت فی ابتداء الاسلام ثم نسخت بعد ذلک(۲)
اسی طرح ہدایہ میں ہے:
وحمل فعلھاالجماعۃ علی ابتداء الاسلام(۳)
جہاں تک امام محمدؒ کے قول ’ہم کو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت امامت کرے(۴) اس سے استحباب کی نفی مراد لینا خلاف واقعہ ہے ،عام فقہاء مکروہ تحریمی کے قائل ہیں۔
تحریر:ناصرعلی ندوی