سوال:ہمارے محلہ میں ایک صاحب ہیں جنہوں نے دوشادیاں کیں اور دونوں بیویوں سے اولاد بھی ہیں، لیکن اس وقت جب اندرا گاندھی کی حکومت تھی اور حکومت کی حکمت عملی یہ تھی کہ نسبندی کرانے والے کو کچھ بیگھہ کھیت اور کچھ نقدی مال دیا جائے گا، لہذا موصوف نے لوگوں سے کہا کہ اب اولاد بھی کافی ہوگئی ہیں اور حکومت کی طرف سے اتنا مال بھی مل رہا ہے۔ لہذا اب ہم نسبندی کرالیں اور موصوف نے ایسا ہی کیا، بعد میں حکومت کی طرف سے کچھ نہ ملا، اس وقت موصوف صوم وصلوۃ کے انتہائی پابند ہیں اور گاؤں میں مسجد میں اذان پابندی سے دیتے ہیں، کسی عالم دین نے گاؤں والوں کو بتایا کہ موصوف اگر اذان دیتے ہیں تو اذان نہیں ہوتی ہے اور جس صف میں نماز کے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ان کے دائیں اور بائیں جو نماز پڑھتے ہیں تو ان کی نماز نہیں ہوتی، مزید یہ بھی بتایا کہ اگر وہ حج کے لئے جائیں تو حج بھی ادا نہیں ہوتا ہے؟
ھــوالـمـصـــوب:
مذکور عمل سے توبہ کے بعد تمام امور بلاکراہت درست ہوں گے، ورنہ اذان دینا مکروہ ہوگا، اور حج کی ادائیگی درست ہوگی اور اس کے دائیں بائیں کھڑے ہونے والے کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
تحریر: محمد مستقیم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی